Home » حال حوال » سنڈے پارٹی رپورٹ!۔۔۔۔عابدہ رحمان

سنڈے پارٹی رپورٹ!۔۔۔۔عابدہ رحمان

آج (20اگست )سنڈے ہے کھانا ہم بنائیں گے۔ اوہ سوری یہ تو نہیں کہنا تھا بلکہ یہ کہ آج سنڈے ہے اور ہم سنڈے پارٹی منائیں گے۔ نیند جو پورے ہفتے کا بدلہ لیتی ہے آج بھی اسی موڈ میں تھی لیکن ہم نے بھی ایسا جھٹکا کہ وہ اپنا سا منہ لے کر رہ گئی۔ نیند کو تکیے پر چھوڑتے ہوئے جو ہم تیار ہوئے تو پھر پروفیشنل اکیڈمی کے بالائی منزل پرہی سانس لی جہاں بابا جان ہر دم فریش رہنے والے لیکن اس پارٹی میں کچھ زیادہ ہیenergize ہوتے ہیں ( بابا عبداللہ جان سے جو وابستہ ہے یہ پارٹی اس لئے)۔ اپنی مخصوص مسکراہٹ لئے ڈاکٹر بزنجو، جاوید صاحب اور زرک کے ساتھ بیٹھے تھے۔ ابھی ہم ڈاکٹربزنجو کے چٹکلوں یعنی ’ جو سوتے ہیں وہی تو اصل میں جاگتے ہیں ‘ سے محظوظ ہو ہی رہے تھے کہ سرور صاحب آگئے اور جناب ہم بھی اپنے پرسر دستِ شفقت لینے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئے۔ عابد، نجیب، غلام نبی صاحب اور آزات بھی اس دوران آتے رہے اور بیٹھتے رہے۔ چند لمحوں میں ہی شیام کمار صاحب دو مہمانوں کے ساتھ پہنچ گئے۔ ان کی باتوں کی پوٹلی اس قدر لبا لب بھری ہوئی تھی کہ انھوں نے سیڑھیوں سے ہی سوشلسٹوں پہ بات کرنا شروع کر دی اور اپنی گاڑی ٹام پین کے روٹ سے ہوتے ہوئے امریکیوں کے مقامی لوگوں کے ساتھ رویئے پر سرزنش پہ جا روکی۔
اسی موڑ پر شیام صاحب چائے کا ایک کپ پی کر (جاوید صاحب کی طرف پیٹھ کر کے اس ڈر سے کہ کہیں کہہ نہ دیں تسلسل نہ توڑیں سر) وہ سمفنی کے موڑ پر مڑ گئے۔ اسی دوران پروین، ناز بارکزئی اور فہیم آئے تو شیام صاحب چند لمحوں کو جو سانس لینے کو جو رکے تو بھئی جاوید صاحب کہاں سانس لینے کو چھوڑنے والے تھے، انھوں نے شیام صاحب کو ادھر ادھر دیکھنے یا سوچنے کا موقع ہی نہیں دیااور گاڑی کی سٹئیرنگ شیام صاحب کے ہاتھ میں ہونے کے باوجود گاڑی جاوید صاحب نے چلا دی۔ شیام صاحب بھی آؤ دیکھتے نہ تاؤ سیدھے سڑک پر روانہ ہو جاتے۔ ایسے میں بزنجو صاحب نے اپنا حالِ دل اس پردے میں بتایا کہ ’ سر عابدہ نے شکر کیا کہ موضوع بدل گیا‘ لیکن کہاں جناب۔۔۔!
خدا بھلا کرے پروین کا جس کمال ہوشیاری سے شیام صاحب کو رادھا کرشن کی کتھا میں اُلجھا دیا تو ہم جیسوں کی دماغوں کی رگیں جو نیند اور صبح صبح ٹام پین کی سی مشکل باتوں کی وجہ سے تنی ہوئی تھیں ، اپنی اصل حالت میں آگئیں۔اس کتھا سے بات بھجن کی جانب بڑھی ۔
پھر جناب بات جو لیاری کے حالات پر شروع ہوئی تو وہ بحث ہوئی کہ الحفیظ الامان۔ زرک نے جو انگڑائی لے کے آنکھ کھولی تو وہ سمجھا کہ شاجہاں آیا ہے اور لگا بحث کرنے۔ یہ تو وہ بہت بعد میں سمجھ پایا کہ بحث میں شاہجہاں نہیں تھالہذا وہ سکون سے بیٹھ گیا۔
اچانک پروین نے خبر دی کہ ہم میں تو ایک شاعرہ بیٹھی ہے تو جناب اس شاعرہ یعنی ناز بارکزئی نے اپنی نظمیں سنائیں۔ بابا جان نے اپنی ترجمہ کرنے کی حس ( ترجمہ کرنے کی حِس۔۔۔؟؟؟) جی ہاں اسی حِس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بلوچی نظم کا اردو میں خوبصورت ترجمہ کر کے ہمیں بھی واہ واہ کرنے کا ( جس سے بابا کو چِڑ ہے) موقع دیا ۔ ایک جگہ جو بابا جان نے کہا کہ ’ عابدہ تم تو شاعرہ نہیں ہو کہ اپنی شاعری سناؤ‘ تو عابدہ بھی جو اپنے ہاتھ میں کاغذ پر لکھی ہوئی مختصر نظمیں پکڑے ہوئے تھی مُٹھی میں سمیٹتے ہوئے کہا ’ جی ی ی ی ی بابا جان ‘ ۔ شیام صاحب بہت خوش تھے کہ انھوں نے دو ہفتوں کی پس انداز کی ہوئی ساری باتیں ہم تک پہنچا دیں ( ایک بھی نہیں رہنے دی)۔۔۔ جاوید صاحب خوش تھے کہ میں خود بولوں یا نہ بولوں شیام صاحب کو خاموش رہنے نہیں دیا اور ساری باتیں ان سے نکلوائیں ۔۔۔ جاوید صاحب کو تو جیسے خاموش میسج آگیا کہ انھوں نے پارٹی ختم ہونے کا بآوازِ بلند اعلان کر دیا ۔لہٰذا سب گروپ فوٹو کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے۔

Spread the love

Check Also

سنگت پوہ زانت ۔۔۔ جمیل بزدار

سنگت اکیڈمی آف سائنسزکوئٹہ کی  پوہ زانت نشست 25 ستمبر 2022 کو صبح  گیارہ بجے ...

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *